کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو.....................

 

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو

نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو



اول تو کسی کو دل نہ دو، ہاں یہ بات بھی ٹھیک کہ دل بھلا سوچ سمجھ کر دیا  جاتا ہے! کیوں کہ سوچ سمجھ کر تو منصوبہ بنایا جا سکتا ہے، کوئی کام کرنے کا ،کسی کو قتل کرنے کا ، کسی چال کو کامیاب بنانے کا ۔ مگر دل بھلا کہاں سوچ سمجھ کر دیا جاتا ہے۔

چلو دل دے دیا مگر اب کیا کیا  جائے  اس پر چیخا جائے؟ چلایا جاے ؟ شور مچایا جائے ؟ چلا چلا کر بتایا جائے کہ وہ گیا میرا دل ، دیکھو لوگو ! میرا محبوب کتنا چالاک ہے کیا ہشیاری ہے ، ارے  ! دیکھو دیکھو میرا دل  لیے جا رہا ہے ۔

اس سب سے مراد ایک عاشق کے عشق کی حالت ہے ۔

غالب عاشقوں کو بتاتا ہے کہ دل دیا سو دیا ، معلوم ہے کہ یہ تکلیف سے خالی نہیں مگر جب عشق ہو جائے تو محبوب کا تماشا نہ کیا جائے ۔ کہ جب سینے میں دل نہیں تو دانتوں کے درمیان زبان کیوں ہو ۔

خاموش رہو خاموش کہ تمہارا دل اب محبوب کے قبضے میں ہے ۔

یہ عاشقوں کی فطرت ہے کہ اپنی رسوائی  کا کوئی خوف نہیں ان کو ،مگر جب بات محبوب اور اس کی رسوائی کی ہو تو یہ برداشت سے باہر کی بات ہے اور یہ بات ایک عاشق بخوبی جانتا ہے عاشق میں اس کے محبوب کے عشق کے ساتھ یہ 

فطرت وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔



ہم اس لیے ظالم تیرا چرچا نہیں کرتے 

عاشق کبھی معشوق کو رسوا نہیں کرتے

Comments

Popular posts from this blog

Uses of computer in Medical imaging (MRI, CT, X-ray)

Use of Computer Science in Telemedicine

Uses of Computer in Robotics in surgery